Stories




سرکاری عہدے پر فائز چوہدری صاحب جب دفتر سے گھر پہنچے تو ان کے بیٹے نے کہا ”ابو جان! مجھے تھوڑی زمین چاہیئے“۔ باپ نے جواب دیا کہ بیٹا زمین تو ہے ہی تمہاری۔ تھوڑی تو کیا، تم ساری کے مالک ہو۔ بیٹے نے کہا ”نہیں ابو جان، یہ بات نہیں بلکہ مجھے کھیتی باڑی کے لئے تھوڑی سی زمین چاہیئے“۔ بچے کو کھیتی باڑی کی الف بے تک نہیں معلوم تھی اور اوپر سے پڑھنے لکھنے والے لاڈلے بچے کی ایسی بات پر باپ حیران ہوا۔ مسکرا کر بچے کو دیکھا اور بولا ”بیٹا خیریت تو ہے؟“ بیٹے نے جواب دیا کہ بس میرا دل کر رہا ہے کہ میں تھوڑی بہت کھیتی باڑی سیکھوں۔ باپ نے کہا ”بیٹا یہ بہت سخت کام ہے۔ تم چھوٹے ہو، نہیں کر سکو گے۔“ بچے نے اپنے ہم عمر کئی لڑکوں کی مثال دے کر کہا کہ جب وہ سب کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟ باپ نے لاکھ سمجھایا کہ ان کے اور تمہارے رہن سہن میں بہت فرق ہے۔ تم نے کبھی کسّی اور درانتی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ بہرحال بچے کے بہت زیادہ اصرار پر باپ مان گیا۔ زمینوں پر کام کرنے والے ملازم کو بلایا اور کہا کہ فلاں تھوڑی سی زمین جو خالی پڑی ہے، ادھر کچھ کاشت نہ کرنا، کیونکہ اب وہاں چھوٹے چوہدری صاحب کھیتی باڑی کریں گے۔ ملازم حیرانی اور تجسس سے دونوں کی طرف دیکھتا ہوا ”جی ٹھیک جناب“ کہہ کر چلا گیا۔

بچہ رات کافی دیر تک اپنے دادا کے پاس بیٹھا کسانوں کی باتیں اور کہانیاں سنتا اور کاشت کاری کی معلومات لیتا بلکہ اپنے تائیں گُر سیکھتا رہا۔ جب بھی اسے کوئی نئی بات کا پتہ چلتا تو فوراً دادا سے پوچھتا کہ کیا آپ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ پھر دادا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بیٹا جو زمین تمہیں ”ملی“ ہے وہ سوکھی پڑی ہے۔ سب سے پہلے اس کو پانی لگانا ہو گا تاکہ وَتر (نم) ہو اور بیج بویا جا سکے۔ بچے نے کہا ٹھیک ہے میں کل کسی وقت زمین کو پانی لگاتا۔۔۔ اس پر دادا نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا کہ بیٹا جی! کسی وقت نہیں بلکہ پو پھوٹنے (صبح صادق) سے پہلے کسّی تمہارے کندھے پر ہونی چاہیئے۔ یہ کسان کا سب سے پہلا اصول ہے کہ وہ صبح کاذب سے پہلے اٹھ کر اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ باپ اور دادا کو ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا کہ بچے کو بس عارضی شوق چڑھا ہے اور کھیتی باڑی کی سختی دیکھ کر ایک دو دن میں اتر جائے گا۔مگر ہوا یوں کہ پو پھوٹنے سے پہلے بچہ واقعی زمینوں پر پہنچ چکا تھا۔

جدید نظام کی مشین ہونے کی وجہ سے اس نے محض ایک بٹن سے ٹیوب ویل تو چلا لیا مگر اس کے بعد اصل مرحلہ شروع ہوا یعنی کھال اور کیاروں کی دیکھ بھال۔ ٹیوب ویل سے زمین تک پانی پہنچانے کے لئے پہلے بھی اور اب بھی کئی علاقوں میں مٹی کے بند باندھ کر جو نالی بنائی جاتی ہے، اسے ”کھال“ کہتے ہیں۔ مزید زمین میں بند باندھ کر اسے ”کیاروں“ (کیاریوں) کی صورت میں چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، تاکہ آسانی سے اور کم پانی سے زمین سیراب کی جا سکے۔ کھال اور کیاروں کے بند چھوٹے اور مٹی کے ہونے کی وجہ سے پانی کے بہاؤ اور دباؤ سے کئی دفعہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لئے مسلسل ان کی نگرانی کرنی ہوتی ہے تاکہ اگر کہیں سے بند ٹوٹے تو ادھر فوراً مٹی ڈال کر پانی کو ضائع ہونے سے روکا جائے۔ خیر ٹیوب ویل چلانے کے بعد شروع میں تو سب اچھا رہا مگر پھر اچانک ایک جگہ سے بند ٹوٹ گیا۔ لڑکا دوڑا دوڑا ادھر پہنچا بڑی مشکل سے بند دوبارہ ٹھیک کیا۔ ابھی اس نے وہ ٹھیک ہی کیا تھا کہ ایک اور جگہ سے بند ٹوٹ گیا۔ وہ ادھر پہنچا اور ٹھیک کرنے لگا۔ ناتجربہ کاری اور تیزی سے مٹی کھودنے کا فن نہ آنے کی وجہ سے اس سے پانی قابو نہیں ہو رہا تھا۔ اوپر سے بند کمزور بنتے اور جلد ہی ٹوٹ جاتے۔ چونکہ حالات قابو نہیں ہو رہے تھے اس لئے اسے کسانوں کی روایت کے برخلاف کئی دفعہ ٹیوب ویل بند کرنا پڑا، تاکہ پانی کا بہاؤ رکے اور وہ بند ٹھیک کر سکے۔ اس ”دوڑا دوڑی“ کے عالم میں جب وہ گیلی زمین پر پاؤں رکھنے کے بعد اٹھاتا تو جوتے کی وجہ سے کیچڑ اس کے سر تک پہنچتا۔ بھاگ دوڑ میں اسے ذرا بھی خیال نہ آیا کہ جوتا اتار ہی لے، جیسا کہ عام طور پر کسان کرتے ہیں۔

چاروں طرف روشنی پھیلنے لگی اور صبح ہو گئی۔ زمین سے تھوڑی دور راستے پر لوگوں کی آمدورفت شروع ہو چکی تھی۔ اکثر لوگ سر سے پاؤں تک کیچڑ میں لت پت لڑکے کو دیکھ کر رک جاتے۔ بہتوں کو یقین ہی نہ آتا کہ فلاں کا لڑکا اور کھیتی باڑی؟؟؟ کئی لوگ لڑکے کے پاس جا کر یقین دہانی کرتے اور پوچھتے کہ خیریت تو ہے کہ تم اور یہ کام؟ لڑکا مسکراتا اور فقط کہتا کہ بس چاچا شوقیہ فنکاری ہو رہی ہے۔ اُدھر جب لڑکے کے گھر میں پتہ چلا کہ وہ واقعی زمین کو پانی لگانے پہنچا ہوا ہے تو ماں کو فکر ہوئی کہ بھوکا ہی چلا گیا۔ یوں کسانوں کی روایت کے مطابق اس کا ناشتہ زمین پر پہنچا۔ جیسے جیسے جون کا سورج چڑھتا گیا ویسے ویسے کڑکتی دھوپ کی تپش لڑکے کو جھلسانے لگی اور اسے باپ کی باتیں یاد آنے لگیں۔ اس کے ذہن میں خیال آنے لگا کہ یہ میں نے کیا مصیبت گلے ڈال لی۔ مگر پھر اس نے حوصلہ کیا اور ارادہ کیا کہ جب باقی دنیا کر سکتی ہے تو میں بھی کر کے دیکھاؤں گا۔ خیر اس نے اللہ اللہ کر کے شام تک زمین سیراب کر ہی دی۔ ٹیوب ویل پر ہی نہایا اور گھر پہنچا۔ تھکاوٹ کا یہ عالم تھا کہ چارپائی پر بیٹھا اور ادھر ہی ”ڈھیر“ ہو گیا، ساری رات گہری نیند سویا بلکہ بے ہوش پڑا رہا۔ غالباً اس کی عقل ٹھکانے آ چکی تھی۔ ایک دو دن تک کئی لوگ اسے نہایت حیرانی سے دیکھتے کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔ کئی کہتے کہ پڑھے لکھے باپ کا بیٹا ہے اور خود بھی پڑھتا ہے مگر یہ کھیتی باڑی جیسے کام کی طرف کہاں چل پڑا۔

دو چار دن بعد زمین خشک ہوئی اور مناسب وتر آنے پر ٹریکٹر کی مدد سے ہل چلایا گیا۔ لڑکے کے باپ نے کہا کہ تمہیں بیج بکھیرنے کا فن نہیں آتا اس لئے ملازم بکھیر دیتا ہے۔ مگر لڑکے پر سب کچھ خود کرنے اور سیکھنے کا بھوت سوار تھا، یوں جیسے تیسے اور الٹا سیدھا باجرے کا بیج اس نے خود بکھیرا۔ روزانہ زمین کو دیکھنے جاتا کہ پودے نکل رہے ہیں یا نہیں۔ پھر ایک دن قدرت کو معمولی بیجوں سے پودے تخلیق کرتے اس نے خود دیکھا۔ جس دن اس نے زمین کا سینہ چیر کر سر نکالتے پودے دیکھے تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اچھلتا کودتا گھر پہنچا اور اپنی ماں کو بتایا کہ جو بیج میں نے بویا تھا اس سے فصل اگ رہی ہے۔ واقعی انسان اپنے لگائے پودے کو پروان چڑھتا دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ بہرحال پودے تھوڑے بڑے ہوئے تو لڑکے نے کھاد بکھیری اور ساتھ ہی فصل کو پانی دیا۔ پانی لگانے کے بعد تھکاوٹ تو پہلے جیسی ہی ہوئی مگر اب کی بار اُگتی فصل دیکھ دیکھ کر اسے خوشی ہوتی۔ فصل کو ایک دو دفعہ مزید پانی لگایا گیا اور آخر باجرے کے پودے قدآور ہو گئے۔ جب ہوا سے پودے جھومتے تو لڑکا بھی ان کے ساتھ خوشی سے جھومتا۔ وہ گھنٹوں بیٹھ کر فصل کو دیکھا کرتا۔ اسے یقین ہی نہ آتا تھا کہ جو چھوٹے چھوٹے بیج اس نے بوئے تھے، ان سے اتنے قد آور پودے بن گئے ہیں۔ اس کو اس سارے کام میں اتنا مزہ آیا کہ اس نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کئی دفعہ خود اپنے ہاتھوں سے فصل کاشت کی۔ ہر دفعہ بیج سے پودے کی تخلیق اسے خوش کرتی۔ وہ خدا کی قدرت پر حیران ہوتا کہ کیسے مٹی سے رزق پیدا ہوتا ہے۔ مٹی کے ساتھ مٹی بن کر رزق کی تلاش اسے بہت سکون دیتی تھی۔

پھر وہ دن آ گیا جب اس کی باجرے کی فصل پک کر تیار ہو گئی۔ لڑکے نے اپنے دوستوں کی مدد سے کٹائی کی۔ دانوں کو بھوسے سے علیحدہ کیا اور باجرہ ریڑھے پر لاد کر منڈی بھجوا دیا۔ خود باپ کے ساتھ منڈی پہنچا۔ جب آڑھتی نے پیسے لڑکے کے باپ کی طرف بڑھائے تو انہوں نے لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے دو۔ لڑکے کو عجیب سی خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ ایسی خوشی کہ جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ وہ پیسے تب کے پندرہ سالہ لڑکے اور آج کے ایک سافٹ ویئر اور ویب ڈویلپر، ایک اردو بلاگر یعنی راقم الحروف (راشد ابراراعوانؔ) کی پہلی کمائی تھی۔

0 comments:

Post a Comment